دھنی کے لوک ناچ - انور بیگ اعوان

8:25 AM


لوک ناچ بھی لوک گیتوں کی ایک قسم ہے جس میں فرق صرف اتنا ہے کہ لوک ناچوں میں کچھ عملی اقدام ہوتے ہیں اور جسم کو حرکت دی جاتی ہے۔جب انسان نے اول اول اپنے آپ کو پہچانا تو کائنات میں سب سے پہلے اسے زندگی اور موت ، محبت اور نفرت، بہار اور خزاں کے نشیب و فراز نے متاثر کیا اور جب اس کو تفکر ذہن کی حدوں میں نہ سما سکا تو اس نے رقص کی صورت اختیار کر لی۔ رقص انسان کا اولین ذریعہ اظہار ہے اور ہر ملک کے لوک ناچ انسان کے اولین رقص کی شاخیں ہیں۔ جنہوں نے زمانہ کی ہزاروں گردشوں میں پسنے کہ باوجود اپنا وہ بے ساختہ پن وہ سادگی ، وہ سچائی اور وہ نکھار نہیں کھویا جو فن کے فطری رحجانات کا اثاثہ ہیں۔
لوک ناچ سے دنیا کا کوئی ملک محروم نہیں۔ جاوا ، سماٹرا اور بالی کے لوک ناچ تمام دنیا میں مشہور ہیں۔ سابقہ پنجاب کو بھی یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں کے لوک ناچ ہندوؤں ، مسلمانوں اور سکھوں کی مشترک میراث ہیں۔ پانچ دریا ؤں کی سرزمین میں جتنے لوک ناچ مروج و مقبول ہیں وہ سب مغربی پنجاب میں ہی پیدا ہوئے اور یہاں پروان چڑھے۔ قومی تعمیرِ نو کے لیے ان سے بڑی مدد لی جا سکتی ہے بشرطیکہ ہمارے ادیب ، شاعر اور حکومت اس طرف مل کر توجہ دیں۔ اس علاقے میں دو ہی لوک ناچ مقبول ہیں ایک بھنگڑا اور دوسری لڈی ۔

بھنگڑا

ڈاکٹر عبد السلام اس ناچ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ناچ ان بھلے دنوں کی یادگار ہے جب مشینون کا رواج نہ تھا ، جب بنیے نے جنم نہ لیا تھا۔ جب ساہو کار پیدا نہ ہوا تھا اور وہ نظام بھی نہ آیا تھا جس نے اناج کا تخت و تاج چھینا اور اسے تانبے کے سر رکھ دیا۔ ان دنوں گندم ہی رانی تھی اور زندگی کی ساری خوشیاں اسی سے وابستہ تھیں۔جب فصل پکنے کا قت آتا کسان کو پھولے ہوئے کھیتوں کی آذاد فضا اور گندم کی لہلاتی ہوئی اور پکی ہوئی پیلی ڈالیاں مجبور کرتیں کہ ناچو اور خوب ناچو کہ دھرتی سونا اگل رہی ہے۔ یہ خوشی کہ دن ہیں ، جانے کب بیت جائیں کہ ویلا تو ہے ہی "جھٹ دا میلہ"فصل کاٹنے کے موسم میں جب جوانوں میں فصل کاٹنے کا مقابلہ ہوتا ہے تو کامیابی پر خوشی منانے کے لیے یہ ناچ ناچا جاتا ہے۔ چند نوجوان ڈھول بجانے والے کے ارد گرد حلقہ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک آدمی کوئی سر یا ڈھول گاتا ہے ، سُر ختم ہونے پر آخری لفظ کو لمبا کر کے کُوک لگاتا ہے اور ڈھول کے سامنے ٹانگ اٹھا کر اور دونوں بازو اوپر پھیلا کر ایک ٹانگ پر ناچتا ہے ۔سب مل کر ساتھ ساتھ یہ گیت گاتے ہیں:۔
توں صدقے کہ میں صدقے                           چٹی پگ دے وچ سوہا پھل لٹکے
بار بار اسی کو دھراتے جاتے ہیں اور ڈھول کی گت پر دائرے میں تالیاں پیٹ پیٹ کر چکر کاٹتے جاتے ہیں۔ آخر ڈھول کی گت تیز ہو جاتی ہے اور ناچنے والوں کی حرکات و سکنات میں بھی تیزی آ جاتی ہے۔ با لآخر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر نعرہ مار کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یوں بھنگڑا مکمل ہو جاتا ہے۔اگر کسی پہلوان یا مقابل کی تضحیک مطلوب ہو تو پھر منہ میں انگلیاں ڈال کر سیٹیاں بجائی جاتی ہیں اور ان سیٹیوں کی سُر ڈھول کی تال کا عین بین ساتھ دیتی ہے۔اس وقت اسے بھنگڑہ کی بجائے چوہا مارنا کہا جاتا ہے۔

لڈی

لڈی ایک نشیلا لوک ناچ ہے اس کے رسیئے گیت نہیں گاتے وہ صرف ناچتے ہیں۔ گھنٹوں بازوؤں کو لہراتے اور جسم کے انگ انگ کو لچکاتے مستی اور بے خودی کی حد تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔لڈی خوشی اور کامرانی کا گیت ہے ۔ ڈھول کے ارد گرد نوجوان مرد اور عورتیں حلقہ باندھ کر ناچتے ہیں اور چکر کاٹتے ہیں۔ اس میں پاؤں کی حرکت زیادہ ہوتی ہے اور لہک لہک کر ایسے اشارے کرتے ہیں کہ گویا ڈھول کو چھونا چاہتے ہیں ۔ یہ منظر بڑا دلکش ، جوش انگیز اور جاذبِ نظر ہوتا ہے۔ ناچنے والے تو ایک طرف رہے دیکھنے والے بھی ناچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔علاقہ دھنی میں عموماً یہ ناچ بیاہ شادیوں کے موقع پر پیش کیا جاتا ہے۔
تحریر : انور بیگ اعوان  انتخاب : صائمہ مظفر گوندل

عابد جعفری کی دو غزلیں

7:59 AM


عابد جعفری صاحب جہاں چکوال کے ادبی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں وہیں ملکی سطح پر بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ چکوال انفو ڈاٹ کام اپنے قارئین کے لیے آپ کی دو غزلیں بصد عقیدت و احترام پیش کرنے جا رہا ہے۔

(1)

آخر کو فرصتِ غمِ جاں بھی تو چائیے
اتنا تو ہو کہ کوئی مرے تو سکون سے

موسم تمام اس کی طبیعت کے رنگ ہیں
منظر سبھی ہیں اس کی نگاہوں کے زاویے

پھر یوں ہوا کہ در سبھی دیوار ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ بند ہوئے سارے راستے

جس جس طرف سے وہ شہ خوباں گزر گیا
بازار نگہتوں کے لگے پھول کھل اٹھے

وہ لوگ ابتدائے سفر میں جو ساتھ تھے
منزل قریب آئی تو راستہ بدل گئے

(2)

عشق کو راہنما بنا لینا
حسن کو مدعا بنا لینا

ایک معصوم سی محبت کو
زیست کا آسرا بنا لینا

چند طوفاں بریدہ تنکوں میں سے
پھر کوئی گھونسلہ بنا لینا

جب مسافت طویل ہو جائے
ساتھ ایک قافلہ بنا لینا

کیا یہ سادہ دلی نہیں عابد
ناخدا کو خدا بنا لینا

انتخاب : صائمہ مظفر گوندل

ناطق جعفری کی دو غزلیں

8:29 AM

نوجوان شاعر ناطق جعفری جہاں چکوال کے ادبی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں وہاں ملکی سطح پر بھی اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ دو شعری مجموعے اشک ِ دعا اور رخت ِ خواب شائع ہو کر قارئین سے داد پا چکے ہیں۔ چکوال انفو ڈاٹ کام آپ کی خدمت میں ناطق جعفری کی دو غزلیں پیش کرنے جا رہا ہے۔

(1)

ایسا نہ ہو آتے ہی چراغوں کو بجھا دے
ہر ہر کو مرے شہر کے آداب سکھا دے

اس شہر سے آیا ہوں جہاں شب نہیں ڈھلتی
مجھ کو مرے محسن! کوئی سورج ہی دکھا دے

مٹی مری شہ رگ کا لہو چاٹ رہی ہے
داروغہ زنداں! مجھے قاتل کا پتا دے

اس خوف سے میں تیرا حوالہ نہیں دیتا
مجھ کو نہ تماشا تیرا بازار بنا دے

اس حال میں اتنا تو اسے ازن دے ناطق
ہاتھوں کی لکیروں سے ترا نام مٹا دے

(2)

اِک طرف جام اِک طرف آنکھیں
اور سچ مچ میرا ہدف آنکھیں

جب شہنشاہِ حسن گزرے گا
اس کو دیکھیں گی صف بہ صف آنکھیں

جب جدائیم کا میں نے ذکر کیا
گوہر افشاں ہوئیں صدف آنکھیں

چار جانب بھٹک بھٹک کے یوں
ڈھونڈتی ہیں درِ نجف آنکھیں

کون اس سے یہ اب کہے ناطقؔ!
چاہیں دیدار کا شرف آنکھیں


انتخاب : شاہ معین الدین

حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ

6:39 PM


خطہ چکوال جہاں ایک طرف شہیدوں، غازیوں اور شاعروں کی سرزمیں کے طور پر معروف ہے وہیں اس کی ایک اور پہچان اس خطے میں مدفون کثیر تعداد اولیاءاللہ سے بھی ہے۔اس علاقے میں قلندرِ زماں سید اسد الرحمان قدسی، حضرت شاہ مراد خانپوری اور حضرت سید سخی سیدن شاہ شیرازی جیسے گوہرِ نایاب ابدی نیند سو رہے ہیں۔
قیامِ پاکستان سے قبل انگریز راج میں چند ملزمان قتل کے جرم میں حوالات میں بند تھے، تمام ثبوت ملزمان کے خلاف تھے اور عدالتی کاروائی مکمل ہو چکی تھی۔جس دن ملزمان کی سزائے موت کا فیصلہ سنایا جانا تھا ، انہوں نے افسرانِ بالا سے استدعا کی کہ ہم عدالت میں پیش ہونے سے قبل اپنے مرشد کے مزار پر حاضری دینا چاہتے ہیں ،ان کی یہ درخواست قبول ہوئی۔ انہوں نے مرشد کے دربار پر جا کر آہ و زاری کے ساتھ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور ہتھ کڑیاں ٹوٹ کر دور جا گریں۔پولیس کے سپاہیوں نے اپنی پوری کوشش کی مگر دوبارہ ان کے ہاتھ میں ہتھ کڑیاں نہ لگ سکیں، لا چاراً انہیں بغیر ہتھ کڑیوں کے عدالت میں پیش کیا گیا ۔ انگریز جج نے تمام واقعہ سننے کے بعد مقدمے کی از سرِ نو سماعت کا حکم دیا ، جس میں ملزمان نے بے گناہ ثابت ہو کر رہائی پائی۔
متذکرہ بالا واقعہ ضلع چکوال کی سر سبزو شاداب وادی چوہا سیدن شاہ میں پیش آیا اور جس عظیم ہستی کے دربار پر پیش آیا دنیا انہیں حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق سادات کی شیرازی شاخ سے تھا۔ آپ کے آباؤ اجداد میں سے ایک بزرگ سید شیر علی شاہ شیرازی ہمایوں کی فوج میں اعلیٰ افسر تھے اور ہمایوں کے ہمراہ ایران سے برِ صغیر تشریف لائے۔ حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد کا نام سید فیروز شاہ شیرازی تھا ، آپ مستجاب الدعوات بزرگ تھے اور مشرقی چکوال کے علاقہ لنڈی پٹی میں ناڑہ مغلاں نامی گاؤں میں مقیم تھے۔ یہیں ولی کامل حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش ہوئی۔ آپ کا سن و تاریخ پیدائش کسی کتاب یا تذکرے میں نہیں ملتا البتہ قیاس کیا جاتا ہے کہ آپ سترہویں صدی کے درمیانی عشروں میں پیدا ہوئے۔
آپ نے دینی تعلیم اپنے والدِ محترم سے ہی حاصل کی۔ بچپن اور جوانی کا بیشتر عرصہ لنڈی پٹی میں ہی بسر کیا۔ بچپن میں ہی آپ کی ذات سے مختلف کرامات ظہور پذیر ہونا شروع ہو گئیں تھیں۔ اسی دور میں جب آپ گاؤں والوں کی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے تو آپ کا معمول تھا کہ انھیں جنگل میں لے جا کر حوالہ خدا کر دیتے اور خود عبادت میں مصروف ہو جاتے۔مال مویشی بھی آپ کی تقلید میں ربِ کائنات کے آگے سر بسجود ہو جاتے۔گاؤں والے خوش تھے کہ ان کے مویشی روز بروز موٹے تازے ہوتے جا رہے ہیں، پھر ایک دن جب ناڑہ مغلاں والوں پر آپ کا یہ راز عیاں ہوا تو انہیں جا کر معلوم ہوا کہ ان کے درمیاں کیسی نابغہ روزگار ہستی بس رہی ہے۔
آپ نے جوانی میں فقیرانہ رقش اختیار کی اور گاؤں گاؤں نگر نگر پھرنا شروع کر دیا۔ جس رات معروف صوفی شاعر اور ولی اللہ حضرت شاہ مراد خانپوری کی پیدائش ہوئی آپ خانپور کے نزدیک رہائش پذیر تھے۔شاہ مراد کی پیدائش پر آپ نے اپنے عقیدت مندوں کے ہمراہ یہ کہ کر علاقہ مشرقی چکوال کو چھوڑ دیا کہ اب اس علاقے کا روحانی وارث پیدا ہو گیا ہے۔وقت نے آپ کی اس پیشن گوئی کو حرف بہ حرف صیح ثابت کیا اور شاہ مراد خانپوری صحیح معنوں میں اس علاقے کے روحانی وارث ثابت ہوئے۔
لنڈی پٹی کو چھوڑ کر شاہ مراد نے دھن ، کہون اور جھنگڑ کر سنگم پر واقع جنڈیال جیسے بے آب و گیاہ اور بنجر خطے کو اپنا مسکن بنا لیا۔ جنڈیال کے نزدیک ہی مرکزِ کفرستان کٹاس واقع تھا اور یہاں کے ہندو پنڈت اپنی جادوگرانی اور شیطانی قوتوں کے بل بوتے پر اس علاقے کے بے تاج بادشاہ بنے بیٹھے تھے۔آپ نے اپنی قوتِ ایمانی سے ان پر کاری ضرب لگائی اور علاقے میں اسلام کا بول بالا کیا۔ہندو پنڈتوں نے کئی بار آپ سے مقابلہ کر کے اپنی ساکھ کو بہال کرنا چاہا مگر ہر بار منہ کی کھائی۔
جنڈیال جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ایک خشک اور بنجر علاقہ تھا، یہاں کے لوگ پانی کٹاس کی جھیل سے لاتے تھے۔ وہاں کے ہندو مسلمانوں کو پانی لے جانے نہیں دیتے تھے اور انھیں طرح طرح سے تنگ کرتے۔ جب جنڈیال کے لوگوں نے سخی سیدن شاہ شیرازی سے پانی کی بابت بات کی تو آپ نے کٹاس جا کر ہندؤں سے پانی فراہم کرنے کی درخواست کی جو انہوں نے ٹھکرا دی۔پنڈتوں کے انکار پر ولی کامل نے اپنا عصا جھیل میں مارا اور جھیل کے پانی کو حکمِ الہیٰ سے کھینچتے ہوئے جنڈیال کی طرف چل پڑے۔ راستے میں بے شمار وادیاں اور اونچی نیچی جگہیں آئیں مگر پانی آپ کے حکم پر آپ کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا جنڈیال پہنچ گیا۔وہ پانی اس دن سے آج تک رواں دواں ہے ، اس واقعے کی بدولت ہی جنڈیال جیسی بنجر زمیں نے سیراب ہو کر چوہا سیدن شاہ کے نام سے شہرت پائی۔
حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کی ذات سے کئی ایک کرامات وابستہ ہیں۔ ایک بار ایک ہندو عورت جو آپ کی انتہائی عقیدت مند اور آپ کی خدمت میں اکثر حاضری دیا کرتی تھی نے آپ کے پاس آ کر عرض کی کہ میں دریائے گنگا پر نہانے گئی اور میرے زیورات وہاں دریا میں گم ہو گئے ہیں ۔ سسرال والے میری اس بات پر یقین نہیں کرتے اور مجھ پر ظلم ڈھاتے ہیں ،ساتھ ہی اس نے رو رو کر حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ سے مدد کی درخواست کی۔حضرت نے یہ سن کر اپنا عصا مبارک زمیں پر مارا تو وہاں سے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا، آپ نے اس عورت سے کہا کہ اس میں سے اپنے زیورات اٹھا لو۔ عورت نے بے شمار زیورات میں سے اپنے زیورات پہچان کر اٹھا لیے۔ یہ بات جب اس عورت کے خاندان تک پہنچی تو وہ بہت حیران ہوئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام کے دامن میں پناہ لے لی۔
خطہ چکوال کے اس عظیم ولی اللہ کے حالاوت و واقعات تاریخ کی کتابوں میں کم ہی ملتے ہیں۔ جس طرح آپ کی تاریخ و سن پیدائش کا علم نہیں یوں ہی آپ کے وصال کے بارے میں بھی تاریخ خاموش ہے۔تا ہم مختلف تاریخی حوالوں کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ کی وفات سترہویں صدی کے آخری عشروں میں ہوئی۔ آپ کو چوہا سیدن شاہ میں سپردِ خاک کیا گیا اور وہاں ہر سال چیت کی آخری جمعرات ( اپریل میں ) کو آپ کا عرس مبارک انتہائی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے ہے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ ایسے ہی لوگوں کے لیے کہ کے گئے ہیں۔۔
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو ديکھ ان کو
يد بيضا ليے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں ميں

تحریر : شاہ معین الدین

چکوال رنگ - صائمہ مظفر گوندل

7:25 AM
پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد سے 90 کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب واقع ضلع چکوال انفرادیت کے بیش بہا خزانے اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ شہر کا نام مائر منہاس قبیلہ کے سردار چوہدری چکو خان سے منسوب کیا جاتا ہے۔آبادی 2010 ءکے اعدادو شمار کے مطابق تقریباً 117,221 ہے۔1881ء میں برطانوی راج کے تحت اسے تحصیل کا درجہ دے دیا گیااور بالآخر 1985 ءمیں یہ ضلع کے درجے تک پہنچا ۔شہر کا رقبہ لگ بھگ 10 مربع کلو میٹر ہے۔


دھنی خطے میں واقع یہ شہر سطع مرتفع پو ٹھوہار میں آتا ہے۔اس خطے کی تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانے میں یہ غیر آبادھنی خطہ ڈوگرہ راجپوتوں اور کھوکھر راجپوتوں کی ریاست جموں کا ہی ایک حصہ تھا جسے وہ ایک شکار گاہ کی حیثیت دیتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ چوہدری سدھار نے اپنے بیٹوں کے نام پر مختلف گاؤں اور بستیاں بسائیں۔اس کا ایک بیٹا چکو اسی دھنی خطے میں آباد ہوا اور اسی کی نسبت سے اس کا نام چکوال ٹھہرا۔
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے دور میں اس تحصیل میں کچھ خاندان باقاعدہ طور پر آباد ہوئے جن میں اعوان ،مائر منہاس،راجپوت ،کہوٹ اور مغل وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ یہ خاندان خصوصاً مائر منہاس شیر شاہ سوری کے مختصر عرصہ حکومت میں زیادہ نمایاں ہوئے۔ شیر شاہ سوری نے انہیں چکوال اور اس سے منسلکہ علاقوں کا مکمل قبضہ دے دیا تھا۔یہ وہ دور تھا جب مغل بادشاہ ہمایوں ہندوستان سے فرار ہو چکا تھا۔لیکن جب وہ اہلِ فارس کی مدد سے دوبارہ ہندوستان آیا تو اس نے دھنی خطے سمیت پوراخطہ پوٹھوہارگکھڑوں کے حوالے کر دیاکیونکہ گکھڑوں نے شیر شاہ سوری کی یلغار کے وقت اسے ہندوستان سے فرار میں مدد دی تھی۔چنانچہ جب ہمایوں دوبارہ اقتدار میں آیا تو انھوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں غفلت نہ کی۔
مغل بادشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد مائر منہاس اور مغل کسر دوبارہ ابھرے۔انھوں نے اورنگزیب عالمگیر کے بیٹے معظم شاہ کو حکومت کے حصول میں مدد دی اور یوں معظم شاہ نے انھیں بدلے میں علاقہ دھن سونپ دیا۔اور اب ایک بار پھر پورے خطہ دھن کی چودھراہٹ ان کے ہاتھوں میں تھی۔
سکھوں کے دورِ حکومت میں بھی یہی اس علاقے پر قابض رہے۔چوہدری غلام مہدی نے سردار مہان سنگھ کو اس علاقے میں آنے کی دعوت دی۔یہ وہ زمانہ تھا جب علاقہ دھن اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی پر داخت کے حوالے سے کافی شہرت رکھتا تھا۔حتیٰ کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ جو کہ چکوال کے ان چوہدریوں پر ان کی خدمات کی وجہ سے بہت مہربان تھا ، نے اپنے گھوڑے بھی چکوال کے اصطبلوں میں رکھے تھے۔
1857 ءکی جنگِ آزادی میں ان چوہدریوں نے انگریز سرکار سے کافی تعاون کیا جس کے بدلے میں سرکار نے انھیں جاگیریں بخشیں۔ اس علاقے میں بسنے والی اقلیتیں 1947ءکی تقسیمِ برصغیر کے نتیجے میں یہاں سے ہجرت کر گئیں۔
چکوال اگر چہ خطہ پوٹھوہار کا حصہ قرار دیا جات ہے لیکن یہاں کی مقامی زبان پوٹھوہاری نہیں۔ مختلف دیہاتوں میں مختلف لہجے مروج ہیںتا ہم یہاں کی خصوصاً خطہ دھن کی مقامی زبان "چکوالی " جو شاہ پوری لہجے سے قریب تر ہے۔
تعلیمی میدان میں چکوال اپنی حیرت انگیز ترقی پر مہر استناد ثبت کر واچکا ہے۔گاؤں قصبوں کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہی اور ہر قصبے میں ہر دوسرے قدم پر سکول اور کالج موجود ہے۔گزشتہ چند برسوں میں نجی تعلیمی اداروں کی بھر مار نے سرکاری تعلیمی اداروں کی اہمیت کم کر دی ہے۔
حرف " ش" کو اگر سرزمینِ چکوال کا غالب حوالہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گاکیوں کہ جو تین حوالے اس علاقے کی پہچان ہیں ان کا حرفِ آغاز یہی ہے۔یعنی
شاہ مراد کی دھرتی
شہیدوں کی سرزمیں
شاعروں کی سرزمین
حضرت شاہ مراد خانپوری نے اپنی حیاتِ درخشاں اور اپنی شاعری سے اس علاقے کی تابناکی کو دوام بخشا۔ان کا مزار تکیہ شاہ مراد (نزد خانپور) میں ہے۔چکوال کی تہذیب و ثقافت پر لکھی گئی اپنی ایک کتاب "دھنی ادب و ثقافت" میں انور بیگ اعوان نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ اردو کا پہلا شاعر ولی دکنی نہیں بلکہ شاہ مراد خانپوری ہے۔
پاکستان کی جری سپاہ کا ذکر کیا جائے یا شہداءکا ، چکوال کا نام لیے بغیر یہ ذکر ادھورا ہے۔ناموس ِ رسالت پر جان دینے والے غازی مرید حسین شہید اور غازی میاں محمدشہید کا تعلق بھی اسی دھرتی سے تھا جنہوں نے اپنی شہادت سے اس علاقے کے سینے پر فخر کا تمغہ ثبت کیا۔
چکوال ادب کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔اسی وجہ سے اسے شاعروں کی سرزمیں بھی کہا جاتا ہے۔اردو کے علاوہ پنجابی کےمختلف لہجوں میں شاعری کرنے والے ادب کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ پہلے دیہات کا نام لیتے ہی ایک مخصوص طرز زندگی کا تصور ابھرتا تھا لیکن اب جس تیزی سے دیہات ترقی اور جدت کی جانب مائل بہ سفر ہیں اس سے ان کا حقیقی تصور دھندلا سا گیا ہے۔ اب اگر دیہات کی حقیقی روح سے واقفیت مقصود ہو تو چکوال کے خصوصاً پنجابی شعراءکا کلام پڑھ لیجیے دیہی زندگی اپنے ہر رنگ میں جلوہ گر نظر آئے گی ۔۔۔تجربات اور مشاہدات کی صورت۔

تحریر : صائمہ مظفر گوندل