چکوال رنگ - صائمہ مظفر گوندل

7:25 AM
پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد سے 90 کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب واقع ضلع چکوال انفرادیت کے بیش بہا خزانے اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ شہر کا نام مائر منہاس قبیلہ کے سردار چوہدری چکو خان سے منسوب کیا جاتا ہے۔آبادی 2010 ءکے اعدادو شمار کے مطابق تقریباً 117,221 ہے۔1881ء میں برطانوی راج کے تحت اسے تحصیل کا درجہ دے دیا گیااور بالآخر 1985 ءمیں یہ ضلع کے درجے تک پہنچا ۔شہر کا رقبہ لگ بھگ 10 مربع کلو میٹر ہے۔


دھنی خطے میں واقع یہ شہر سطع مرتفع پو ٹھوہار میں آتا ہے۔اس خطے کی تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانے میں یہ غیر آبادھنی خطہ ڈوگرہ راجپوتوں اور کھوکھر راجپوتوں کی ریاست جموں کا ہی ایک حصہ تھا جسے وہ ایک شکار گاہ کی حیثیت دیتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ چوہدری سدھار نے اپنے بیٹوں کے نام پر مختلف گاؤں اور بستیاں بسائیں۔اس کا ایک بیٹا چکو اسی دھنی خطے میں آباد ہوا اور اسی کی نسبت سے اس کا نام چکوال ٹھہرا۔
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے دور میں اس تحصیل میں کچھ خاندان باقاعدہ طور پر آباد ہوئے جن میں اعوان ،مائر منہاس،راجپوت ،کہوٹ اور مغل وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ یہ خاندان خصوصاً مائر منہاس شیر شاہ سوری کے مختصر عرصہ حکومت میں زیادہ نمایاں ہوئے۔ شیر شاہ سوری نے انہیں چکوال اور اس سے منسلکہ علاقوں کا مکمل قبضہ دے دیا تھا۔یہ وہ دور تھا جب مغل بادشاہ ہمایوں ہندوستان سے فرار ہو چکا تھا۔لیکن جب وہ اہلِ فارس کی مدد سے دوبارہ ہندوستان آیا تو اس نے دھنی خطے سمیت پوراخطہ پوٹھوہارگکھڑوں کے حوالے کر دیاکیونکہ گکھڑوں نے شیر شاہ سوری کی یلغار کے وقت اسے ہندوستان سے فرار میں مدد دی تھی۔چنانچہ جب ہمایوں دوبارہ اقتدار میں آیا تو انھوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں غفلت نہ کی۔
مغل بادشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد مائر منہاس اور مغل کسر دوبارہ ابھرے۔انھوں نے اورنگزیب عالمگیر کے بیٹے معظم شاہ کو حکومت کے حصول میں مدد دی اور یوں معظم شاہ نے انھیں بدلے میں علاقہ دھن سونپ دیا۔اور اب ایک بار پھر پورے خطہ دھن کی چودھراہٹ ان کے ہاتھوں میں تھی۔
سکھوں کے دورِ حکومت میں بھی یہی اس علاقے پر قابض رہے۔چوہدری غلام مہدی نے سردار مہان سنگھ کو اس علاقے میں آنے کی دعوت دی۔یہ وہ زمانہ تھا جب علاقہ دھن اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی پر داخت کے حوالے سے کافی شہرت رکھتا تھا۔حتیٰ کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ جو کہ چکوال کے ان چوہدریوں پر ان کی خدمات کی وجہ سے بہت مہربان تھا ، نے اپنے گھوڑے بھی چکوال کے اصطبلوں میں رکھے تھے۔
1857 ءکی جنگِ آزادی میں ان چوہدریوں نے انگریز سرکار سے کافی تعاون کیا جس کے بدلے میں سرکار نے انھیں جاگیریں بخشیں۔ اس علاقے میں بسنے والی اقلیتیں 1947ءکی تقسیمِ برصغیر کے نتیجے میں یہاں سے ہجرت کر گئیں۔
چکوال اگر چہ خطہ پوٹھوہار کا حصہ قرار دیا جات ہے لیکن یہاں کی مقامی زبان پوٹھوہاری نہیں۔ مختلف دیہاتوں میں مختلف لہجے مروج ہیںتا ہم یہاں کی خصوصاً خطہ دھن کی مقامی زبان "چکوالی " جو شاہ پوری لہجے سے قریب تر ہے۔
تعلیمی میدان میں چکوال اپنی حیرت انگیز ترقی پر مہر استناد ثبت کر واچکا ہے۔گاؤں قصبوں کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہی اور ہر قصبے میں ہر دوسرے قدم پر سکول اور کالج موجود ہے۔گزشتہ چند برسوں میں نجی تعلیمی اداروں کی بھر مار نے سرکاری تعلیمی اداروں کی اہمیت کم کر دی ہے۔
حرف " ش" کو اگر سرزمینِ چکوال کا غالب حوالہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گاکیوں کہ جو تین حوالے اس علاقے کی پہچان ہیں ان کا حرفِ آغاز یہی ہے۔یعنی
شاہ مراد کی دھرتی
شہیدوں کی سرزمیں
شاعروں کی سرزمین
حضرت شاہ مراد خانپوری نے اپنی حیاتِ درخشاں اور اپنی شاعری سے اس علاقے کی تابناکی کو دوام بخشا۔ان کا مزار تکیہ شاہ مراد (نزد خانپور) میں ہے۔چکوال کی تہذیب و ثقافت پر لکھی گئی اپنی ایک کتاب "دھنی ادب و ثقافت" میں انور بیگ اعوان نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ اردو کا پہلا شاعر ولی دکنی نہیں بلکہ شاہ مراد خانپوری ہے۔
پاکستان کی جری سپاہ کا ذکر کیا جائے یا شہداءکا ، چکوال کا نام لیے بغیر یہ ذکر ادھورا ہے۔ناموس ِ رسالت پر جان دینے والے غازی مرید حسین شہید اور غازی میاں محمدشہید کا تعلق بھی اسی دھرتی سے تھا جنہوں نے اپنی شہادت سے اس علاقے کے سینے پر فخر کا تمغہ ثبت کیا۔
چکوال ادب کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔اسی وجہ سے اسے شاعروں کی سرزمیں بھی کہا جاتا ہے۔اردو کے علاوہ پنجابی کےمختلف لہجوں میں شاعری کرنے والے ادب کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ پہلے دیہات کا نام لیتے ہی ایک مخصوص طرز زندگی کا تصور ابھرتا تھا لیکن اب جس تیزی سے دیہات ترقی اور جدت کی جانب مائل بہ سفر ہیں اس سے ان کا حقیقی تصور دھندلا سا گیا ہے۔ اب اگر دیہات کی حقیقی روح سے واقفیت مقصود ہو تو چکوال کے خصوصاً پنجابی شعراءکا کلام پڑھ لیجیے دیہی زندگی اپنے ہر رنگ میں جلوہ گر نظر آئے گی ۔۔۔تجربات اور مشاہدات کی صورت۔

تحریر : صائمہ مظفر گوندل

5 تبصرہ جات:

گمنام

اچھی کاوش ھے ؛

گمنام

شکریہ

گمنام

bohjdkjk kljds

گمنام

gfvdg

گمنام

xkro kd jkj

تبصرہ کیجیے