حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ

6:39 PM


خطہ چکوال جہاں ایک طرف شہیدوں، غازیوں اور شاعروں کی سرزمیں کے طور پر معروف ہے وہیں اس کی ایک اور پہچان اس خطے میں مدفون کثیر تعداد اولیاءاللہ سے بھی ہے۔اس علاقے میں قلندرِ زماں سید اسد الرحمان قدسی، حضرت شاہ مراد خانپوری اور حضرت سید سخی سیدن شاہ شیرازی جیسے گوہرِ نایاب ابدی نیند سو رہے ہیں۔
قیامِ پاکستان سے قبل انگریز راج میں چند ملزمان قتل کے جرم میں حوالات میں بند تھے، تمام ثبوت ملزمان کے خلاف تھے اور عدالتی کاروائی مکمل ہو چکی تھی۔جس دن ملزمان کی سزائے موت کا فیصلہ سنایا جانا تھا ، انہوں نے افسرانِ بالا سے استدعا کی کہ ہم عدالت میں پیش ہونے سے قبل اپنے مرشد کے مزار پر حاضری دینا چاہتے ہیں ،ان کی یہ درخواست قبول ہوئی۔ انہوں نے مرشد کے دربار پر جا کر آہ و زاری کے ساتھ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور ہتھ کڑیاں ٹوٹ کر دور جا گریں۔پولیس کے سپاہیوں نے اپنی پوری کوشش کی مگر دوبارہ ان کے ہاتھ میں ہتھ کڑیاں نہ لگ سکیں، لا چاراً انہیں بغیر ہتھ کڑیوں کے عدالت میں پیش کیا گیا ۔ انگریز جج نے تمام واقعہ سننے کے بعد مقدمے کی از سرِ نو سماعت کا حکم دیا ، جس میں ملزمان نے بے گناہ ثابت ہو کر رہائی پائی۔
متذکرہ بالا واقعہ ضلع چکوال کی سر سبزو شاداب وادی چوہا سیدن شاہ میں پیش آیا اور جس عظیم ہستی کے دربار پر پیش آیا دنیا انہیں حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق سادات کی شیرازی شاخ سے تھا۔ آپ کے آباؤ اجداد میں سے ایک بزرگ سید شیر علی شاہ شیرازی ہمایوں کی فوج میں اعلیٰ افسر تھے اور ہمایوں کے ہمراہ ایران سے برِ صغیر تشریف لائے۔ حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد کا نام سید فیروز شاہ شیرازی تھا ، آپ مستجاب الدعوات بزرگ تھے اور مشرقی چکوال کے علاقہ لنڈی پٹی میں ناڑہ مغلاں نامی گاؤں میں مقیم تھے۔ یہیں ولی کامل حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش ہوئی۔ آپ کا سن و تاریخ پیدائش کسی کتاب یا تذکرے میں نہیں ملتا البتہ قیاس کیا جاتا ہے کہ آپ سترہویں صدی کے درمیانی عشروں میں پیدا ہوئے۔
آپ نے دینی تعلیم اپنے والدِ محترم سے ہی حاصل کی۔ بچپن اور جوانی کا بیشتر عرصہ لنڈی پٹی میں ہی بسر کیا۔ بچپن میں ہی آپ کی ذات سے مختلف کرامات ظہور پذیر ہونا شروع ہو گئیں تھیں۔ اسی دور میں جب آپ گاؤں والوں کی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے تو آپ کا معمول تھا کہ انھیں جنگل میں لے جا کر حوالہ خدا کر دیتے اور خود عبادت میں مصروف ہو جاتے۔مال مویشی بھی آپ کی تقلید میں ربِ کائنات کے آگے سر بسجود ہو جاتے۔گاؤں والے خوش تھے کہ ان کے مویشی روز بروز موٹے تازے ہوتے جا رہے ہیں، پھر ایک دن جب ناڑہ مغلاں والوں پر آپ کا یہ راز عیاں ہوا تو انہیں جا کر معلوم ہوا کہ ان کے درمیاں کیسی نابغہ روزگار ہستی بس رہی ہے۔
آپ نے جوانی میں فقیرانہ رقش اختیار کی اور گاؤں گاؤں نگر نگر پھرنا شروع کر دیا۔ جس رات معروف صوفی شاعر اور ولی اللہ حضرت شاہ مراد خانپوری کی پیدائش ہوئی آپ خانپور کے نزدیک رہائش پذیر تھے۔شاہ مراد کی پیدائش پر آپ نے اپنے عقیدت مندوں کے ہمراہ یہ کہ کر علاقہ مشرقی چکوال کو چھوڑ دیا کہ اب اس علاقے کا روحانی وارث پیدا ہو گیا ہے۔وقت نے آپ کی اس پیشن گوئی کو حرف بہ حرف صیح ثابت کیا اور شاہ مراد خانپوری صحیح معنوں میں اس علاقے کے روحانی وارث ثابت ہوئے۔
لنڈی پٹی کو چھوڑ کر شاہ مراد نے دھن ، کہون اور جھنگڑ کر سنگم پر واقع جنڈیال جیسے بے آب و گیاہ اور بنجر خطے کو اپنا مسکن بنا لیا۔ جنڈیال کے نزدیک ہی مرکزِ کفرستان کٹاس واقع تھا اور یہاں کے ہندو پنڈت اپنی جادوگرانی اور شیطانی قوتوں کے بل بوتے پر اس علاقے کے بے تاج بادشاہ بنے بیٹھے تھے۔آپ نے اپنی قوتِ ایمانی سے ان پر کاری ضرب لگائی اور علاقے میں اسلام کا بول بالا کیا۔ہندو پنڈتوں نے کئی بار آپ سے مقابلہ کر کے اپنی ساکھ کو بہال کرنا چاہا مگر ہر بار منہ کی کھائی۔
جنڈیال جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ایک خشک اور بنجر علاقہ تھا، یہاں کے لوگ پانی کٹاس کی جھیل سے لاتے تھے۔ وہاں کے ہندو مسلمانوں کو پانی لے جانے نہیں دیتے تھے اور انھیں طرح طرح سے تنگ کرتے۔ جب جنڈیال کے لوگوں نے سخی سیدن شاہ شیرازی سے پانی کی بابت بات کی تو آپ نے کٹاس جا کر ہندؤں سے پانی فراہم کرنے کی درخواست کی جو انہوں نے ٹھکرا دی۔پنڈتوں کے انکار پر ولی کامل نے اپنا عصا جھیل میں مارا اور جھیل کے پانی کو حکمِ الہیٰ سے کھینچتے ہوئے جنڈیال کی طرف چل پڑے۔ راستے میں بے شمار وادیاں اور اونچی نیچی جگہیں آئیں مگر پانی آپ کے حکم پر آپ کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا جنڈیال پہنچ گیا۔وہ پانی اس دن سے آج تک رواں دواں ہے ، اس واقعے کی بدولت ہی جنڈیال جیسی بنجر زمیں نے سیراب ہو کر چوہا سیدن شاہ کے نام سے شہرت پائی۔
حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کی ذات سے کئی ایک کرامات وابستہ ہیں۔ ایک بار ایک ہندو عورت جو آپ کی انتہائی عقیدت مند اور آپ کی خدمت میں اکثر حاضری دیا کرتی تھی نے آپ کے پاس آ کر عرض کی کہ میں دریائے گنگا پر نہانے گئی اور میرے زیورات وہاں دریا میں گم ہو گئے ہیں ۔ سسرال والے میری اس بات پر یقین نہیں کرتے اور مجھ پر ظلم ڈھاتے ہیں ،ساتھ ہی اس نے رو رو کر حضرت سخی سیدن شاہ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ سے مدد کی درخواست کی۔حضرت نے یہ سن کر اپنا عصا مبارک زمیں پر مارا تو وہاں سے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا، آپ نے اس عورت سے کہا کہ اس میں سے اپنے زیورات اٹھا لو۔ عورت نے بے شمار زیورات میں سے اپنے زیورات پہچان کر اٹھا لیے۔ یہ بات جب اس عورت کے خاندان تک پہنچی تو وہ بہت حیران ہوئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام کے دامن میں پناہ لے لی۔
خطہ چکوال کے اس عظیم ولی اللہ کے حالاوت و واقعات تاریخ کی کتابوں میں کم ہی ملتے ہیں۔ جس طرح آپ کی تاریخ و سن پیدائش کا علم نہیں یوں ہی آپ کے وصال کے بارے میں بھی تاریخ خاموش ہے۔تا ہم مختلف تاریخی حوالوں کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ کی وفات سترہویں صدی کے آخری عشروں میں ہوئی۔ آپ کو چوہا سیدن شاہ میں سپردِ خاک کیا گیا اور وہاں ہر سال چیت کی آخری جمعرات ( اپریل میں ) کو آپ کا عرس مبارک انتہائی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے ہے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ ایسے ہی لوگوں کے لیے کہ کے گئے ہیں۔۔
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو ديکھ ان کو
يد بيضا ليے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں ميں

تحریر : شاہ معین الدین

3 تبصرہ جات:

کاشف مجید

عمدہ تحریر ہے۔ ۔ ۔ شکریہ

گمنام

کاشف صاحب! پسندیدگی کا شکریہ

گمنام

السلام علیکم برادرم
مجھے آپ کا فون نمبر چاہیئے ۔۔ میں نے حضرت سخی سیدن شاہ شیرازیؒ کے بارے میں مزید جاننا ہے۔ پلیز اپنا نمبر دیں۔ یا پھر مجھے حضرت سخی سیدن شاہ شیرازیؒ کا مکمل شجرہ نسب بھیج دیں۔ شکریہ
سید اصغر شیرازی
اسلام آباد
asgharsherazi@hotmail.com

تبصرہ کیجیے