ایشیاء کا پرندہ

5:39 AM

چکوال سے چالیس کلو میٹر شمال مشرق کی سمت جائیں تو جند اعوان نامی ایک قصبہ آتا ہے۔اس چھوٹے سے پسماندہ قصبے کی چند شخصیات کا ملک کی سیاست اور ثقافت پر بڑا گہرا اثر رہا ہے ۔سیاست کی بات کی جائے تو لیفٹنٹ جنرل(ر) عبدالمجید ملک پانچ مرتبہ اور ان کے بھتیجے میجر (ر) ایک مرتبہ ایم این اے رہ چکے ہیں ۔اسی طرح اگر ثقافت میں کھیلوں کی بات کی جائے تو اسی قصبے کے قبرستان میں ایک ایسی ہستی خاک ہے جسے دنیا ایشیاءکے تیز ترین انسان“ کے نام سے جانتی ہے ۔جی ہاں، میں بات کرر ہاہوں عبدالخالق ، پرندہءِایشیا کی ....جنہوں نے ایک عرصے تک دنیائے ایتھلیٹکس پہ راج کیا۔
عبدالخالق نے 23مارچ 1933ءکو اسی پسماندہ سے قصبے (جند اعوان) میں جنم لیا۔تھوڑے بڑے ہوئے تو چکوال کی ثقافت کے ایک اہم کھیل کبڈی کے نمایاں کھلاڑی بن گئے ۔کبڈی میں ان کا شہرہ دُوردُور تک پھیلا ہوا تھا۔کبڈی میں عبدالخالق کا کسی کے ہاتھ آنا ایک ناممکن سی بات سمجھی جاتی تھی۔ انہی دنوں ایک میچ کے دوران اُس وقت کے پاکستان آرمی اسپورٹس کنٹرول بورڈ کے سربراہ بریگیڈئر سی۔ایچ۔ایم روڈھم کی نظر ان پر پڑی ۔ بریگیڈئر نے عبدالخالق کو پاک فوج کی اس کمپنی میں بھرتی کر لیا جس کا کام بہترین ایتھلیٹ تیات کرنا تھا۔عبدالخالق ایک عمدہ کھلاڑی تو تھے ہی ،اعلیٰ تربیت اور کوچنگ نے ان کی صلاحیتوں کو مزید چار چاند لگا دیئے۔
عبدالخالق 1954ءمیں 23سال کی عمر میں عالمی منظر نامے پر اُبھرے۔انہوں نے اس سال منیلا میں ہونے والی ایشین گیمز سے اپنے بین الاقوامی کیرئیر کی ابتداءایسے کی کہ 100میٹر کا فاصلہ محض 10اعشاریہ 6سیکنڈز میں طے کر کے نیا ریکارڈ قائم کردیا۔اس طوفانی دوڑ کو دیکھنے کے بعد وہاں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود جواہر لال نہرو نے عبدالخالق کو ” دی فلائنگ برڈ آف ایشیائ“ کا خطاب دیا۔1954ءکے انہی ایشیائی کھیلوں میں عبدالخالق نے 400میٹر کی دوڑ میں چاندی کا تمغہ بھی سمیٹا۔ابتدائی دوڑ میں ہی اس قدر اعلیٰ کارکردگی کے بعد پھر عبدالخالق رُکا نہیں ۔ اس نے آنے والے عرصے میں کئی عالمی ریکارڈز کو تہ وبالا کر دیا۔
عبدالخالق نے 1956ءمیں نیودہلی میں ہونے والی پہلی انڈو پاک گیمز اور 1958ءمیں ٹوکیو میں منعقدہ ایشین گیمز میں نہ صرف گولڈ میڈلز جیتے بلکہ نئے ریکارڈز بھی قائم کیے۔ٹوکیومیں انہوں نے 100میٹر کی دوڑ میں اپنا ریکارڈ برقرار رکھا ۔انہی کھیلوں میں انہوں نے 200میٹر دوڑ میں چاندی اور 400میٹر دوڑ میں کانسی کا تمغہ بھی اپنے نام کیا۔عبدالخالق نے 1956ءکے میلبورن اور1960ءکے روم اولمپکس میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی ۔ میلبورن اولمپکس میں 100میٹر دوڑکے پہلے دو راؤنڈز میں وہ دوسرے جبکہ 200میٹر دوڑ کے پہلے دو راؤنڈز میں پہلے نمبر پر رہے ۔ان چند سالوں اوربعد میں آنے والے کئی اور برسوں میں عبدالخالق نے چہارسُو اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑھنے کاسلسلہ جاری رکھا۔آنے والے چند برسوں میں انہوں نے نہ صرف قومی کھیلوں میں 100گولڈمیڈلز جیتے بلکہ بین الاقوامی کھیلوں میں بھی 26گولڈ میڈل اور 23سلور میڈل حاصل کرڈالے۔ 1958ءمیں صدر ایوب خان نے عبدالخالق کو اُن کی بے پناہ صلاحیتوں اور ملکی خدمات کے اعتراف میں ”پرائڈ آف پرفارمنس“ سے نوازا۔
عبدالخالق کو اکثر لوگ 1960ءمیں صدر ایوب خان کی طرف سے پاکستان میں منعقدہ انڈوپاک گیمز میں انڈین ایتھلیٹ مِلکھاسنگھ سے شکست کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔ کھیل کے ماہرین عبدالخالق کی اس شکست پہ کئی ایک جواز پیش کرتے ہیں۔مثلاََ ان کا کہنا ہے کہ اوّل تو صدر ایوب خان اسپورٹس ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتے تھے ۔اس لیے ان کی منشاءیہی تھی کہ مِلکھا سنگھ لاہور میں ہونے والی یہ دوڑ جیتے۔دوم، 1947ءمیں مِلکھا سنگھ کا پوراخاندان پاکستان میں قتل کردیا گیاتھا۔اس لیے وہ غصے میں بھرا ہوا تھا اور بدلہ لینے کے لیے دوڑنے کی بجائے اُڑا جارہا تھا اور سوم یہ کہ عبدالخالق بنیادی طور پر 100میٹر دوڑ کے کھلاڑی تھے جبکہ مِلکھا سنگھ 200میٹر دوڑ کا ماہر تھا اور 1960ءمیں لاہور میں ہونے والی یہ دوڑ 200میٹر کی تھی لیکن میرے خیال میں یہ تیسرا جواز کچھ لایعنی سا ہے کیونکہ مِلکھا سنگھ نے 1958ءمیں ٹوکیوکی ایشین گیمز میں 200میٹر کا فاصلہ 21اعشاریہ 6سیکنڈز میں طے کیاتھا جبکہ عبدالخالق یہی فاصلہ دو برس قبل 1956ءمیں21اعشاریہ 1سیکنڈ میں طے کر چکا تھا۔بہرحال، میرے خیال میں شکست کا کوئی جواز نہیں ہوا کرتا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم محض ایک ناکامی پر ہی ایک اعلیٰ درجے کے ایتھلیٹ کو بھول جائیں جس کا نام ایک عرصے تک کھیل کے ایوانوں میں گونجتا رہاہو۔
۔1971ءمیں عبدالخالق بھی بھارت کے ہاتھ قید ہونے والے پاکستانی سپاہیوں میں شامل تھے۔بھارتی حکام کو جب اُن کی بارے میں معلوم ہواتو انہوں نے ان کی ازحد تعظیم کی ، حتیٰ کہ بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی نے انہیں رہا کرنے کی پیشکش بھی کی لیکن عبدالخالق نے اپنے فوجی ساتھیوں کے ساتھ ہی رہا ہونے کو ترجیح دی۔جنگی قیدیوں کے اسی کیمپ میں مِلکھا سنگھ بھی عبدالخالق سے ملنے آیا۔ مِلکھا سنگھ کا اس ملاقات کے بارے میں کہنا ہے کہ جب ہم قیدیوں کے کیمپ میں ملے تو دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔


عبدالخالق نے پاکستان آرمی اسپورٹس بورڈ میں ایتھلیٹکس کی کوچنگ کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔پاک فوج نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو اعزازی کپتان کے عہدے سے نوازا ،جو ایک عام سپاہی کے لیے سب سے بڑا رینک ہوتا ہے۔ عبدالخالق اسی عہدے کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔پاکستان اور دنیائے کھیل کے اس عظیم ایتھلیٹ نے 1988ءمیں اس جہانِ فانی سے کوچ کیا۔ آپ کے انتقال کے بعد پاک فوج نے ان کے گھرانے کو ایک گھر سے بھی نوازا۔
عبدالخالق ایسے عظیم کھلاڑی کو ملکِ پاکستان کے ہر محب وطن شہری کی طرف سے ایک زوردار سیلوٹ!!!۔

تحریر:اسدمحمود
حواشی:۔
1-"Did the "fastest man of Aisa run in vain?" by Nabeel Anwar Dhakku
2-"Abdul Khaliq: The fastest man of Asia" by Ijaz Chaudhry
۔3۔"عبدالخالق کا کوئی نہیں" از جاوید چودھری

مجھے عدو کے قبیلے کا فرد کیا جانے۔۔۔ ناطقؔ جعفری

5:12 AM

مجھے عدو کے قبیلے کا فرد کیا جانے
مرا رقیب مرے دِل کا درد کیا جانے

مجھے عبث ہے توقع وفا کی ظالم سے
خمارِ ابرِنمو،برگِ زرد کیا جانے

بگولے ششدروحیران ہوکے پھرتے ہیں
جنوں کے کرب کو صحرا کی گرد کیا جانے

بس اس کو دوستو! امرت سمجھ کے پی جاؤ
سرورِبادہ لہو سرد سرد کیا جانے

ہزار بار گنوائی ہے آبرو ناطقؔ
فریبِ زن کو غریب ایک مرد کیا جانے

شاعر:ناطقؔ جعفری   انتخاب: اسدمحمود

شاعری بھی عجیب کتنی ہے۔۔۔ ناطقؔ جعفری

4:59 AM

شاعری بھی عجیب کتنی ہے 

زندگی کے قریب کتنی ہے

ہم سے مت پوچھ برہمی کا سبب
سانس تک بھی رقیب کتنی ہے

دررودیوارِ جاں لرزتے ہیں
خامشی بھی خطیب کتنی ہے

لفظ اظہارِ آرزوکو نہیں
کوئی لڑکی غریب کتنی ہے

کوئی یاد آرہا ہےشدت سے
آج کی شب مہیب کتنی ہے

میں تو تجھ کو نہ مل سکا لیکن
تُو بھی تو بدنصیب کتنی ہے

شاعر:ناطقؔ جعفری    انتخاب: اسدمحمود