کچھ ہمارے متعلق

9:34 AM

اسدمحمود (ایڈیٹر: چکوال انفوڈاٹ کام)
میرا تعارف۔۔۔ جستہ جستہ۔۔۔خستہ خستہ
تحریر: اسدمحمود
حاسدین کا کہنا ہے کہ وہ سال بہت بُرا تھاکہ ہزاروں لوگ سیلاب کی نذر ہوگئے تھے،گومیں نے لوگوں کو سیلابی پانی کی سواری کرتے نہیں دیکھا لیکن میرا خیال ہے کہ وہ سال اتنا بھی بُرا نہیں تھا کیونکہ اس سال کے آخر میں مابدولت کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی تھی(البتہ جب میں اپنے اکثر کلاس فیلوز کی تاریخ پیدائش بھی اسی سال کی دیکھتاہوں تو حاسدین کے کہے پہ کچھ کچھ اعتبار آنے لگتا ہے)۔ بہرحال، یہ 15نومبر1992ء کی ایک سنہری صبح تھی جب مابدولت نے اِس جہانِ فانی میں قدم خوشہ فرمایا۔ ابتدائی تعلیم دیگر تمام بڑے لوگوں کی طرح اپنے ابتدائی علاقے چکوال کے ایک قصبے ملہال مغلاں سے حاصل کی ۔ اس کے بعد بدنام زمانہ سائنس کالج کلر کہار میں جھونک دیئے گئے۔ کلرکہار میں دو سالہ قیدو بند کی صعوبتوں کا صلہ ملا تو فقط اتنا کہ ایف ایس سی میں حاصل شدہ نمبروں کے ساتھ سابقے کے طورپر "امتیازی" کااضافہ ہوگیا اور مابدولت کو یوای ٹی کے رَچنا کیمپس میں داخلہ مل گیا۔ ابھی رَچنا کمپس اور اس سے ملحق "جوڑا سیاں"کی فضاوں میں محض ایک ماہ ہی بیتا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی سے بُلاوہ موصول ہوا جس پہ ازحد انکساری سے تحریر تھا کہ" جناب کے انتظار میں یونیورسٹی کے دروبام سوکھے جارہے ۔آئیے اور اس کی رونقوں کو تاراج ہونے سے بچائیے"۔ سو، رختِ سفر باندھا اور پنجاب یونیورسٹی میں ڈیرے ڈال دیئے۔یونیورسٹی کے پہلے سال میں اَن گنت لوگوں کے سمندر میں تنہائی کا ساتھ میسر آیا تو مابدولت ،کہ کالج میں بھی اُردو ادب کا خاصہ ذوق رکھتے تھے، شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور علمِ عروض جانے بنا ہی غزلوں پہ غزلیں لکھ ماریں۔ دوسرے سال میں مابدولت یونیورسٹی لائبریری کے شعبہ عُلومِ شرقیہ کا حشر نشر کر رہے تھے کہ حکومت نے لیپ ٹاپ کا حقدار قرار دیا جس کے بعد شعبہ عُلومِ شرقیہ کی جان چُھوٹی اور مابدولت نے بلاگنگ کی اوکھلی میں سر دے دیا۔ تیسرے سال میں علمِ عروض حاصل کرنے کا ارادہ ہوا اور ابھی آدھا علم ہی حاصل کر پائے تھے کہ شاعری سے رغبت جاتی رہی،سوائے اس کے کہ مہینوں میں کوئی ایک آدھ غزل یاآزاد نظم خود سے نہ اُتر آئے۔ شاعری سے جی اُچاٹ ہونے پہ آج تک علمِ عروض کی اصطلاحو ں کو قصور وارٹھہراتے ہیں ،نیز جناب کاکہنا ہے کہ ''علمِ عروض شاعری روکنے کی ایک بھونڈی کوشش کانام ہے''۔ سال دوم کے دوران ہی جناب نے باقاعدہ اور "فی سبیل اللہ"  کالم نگاری کا آغاز بھی کیا( اس فی سبیل اللہ میں زیادہ ہاتھ اخبار کے ایڈیٹرز کا تھا)۔کالم نگاری میں  ادبی ، سماجی ،سیاسی ،مزاح ہر طرح کے موضوعات پہ لکھتے ہیں البتہ انفرادیت کے لیے کوشاں رہتے  ہیں۔  چند دن قبل ہی یونیورسٹی میں تین سال مکمل ہوئے ہیں ۔۔۔ (یہ تو تھا ایک مختصر سا تعارف اب ''آگے آگے دیکھئےہوتا ہے کیا؟ ''یا یہ کہہ لیں کہ ''کیا گزرتی ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک؟'')۔