ناطق جعفری کی دو غزلیں
8:29 AM
(1)
ایسا نہ ہو آتے ہی چراغوں کو بجھا دے
ہر ہر کو مرے شہر کے آداب سکھا دے
اس شہر سے آیا ہوں جہاں شب نہیں ڈھلتی
مجھ کو مرے محسن! کوئی سورج ہی دکھا دے
مٹی مری شہ رگ کا لہو چاٹ رہی ہے
داروغہ زنداں! مجھے قاتل کا پتا دے
اس خوف سے میں تیرا حوالہ نہیں دیتا
مجھ کو نہ تماشا تیرا بازار بنا دے
اس حال میں اتنا تو اسے ازن دے ناطق
ہاتھوں کی لکیروں سے ترا نام مٹا دے
(2)
اِک طرف جام اِک طرف آنکھیں
اور سچ مچ میرا ہدف آنکھیں
جب شہنشاہِ حسن گزرے گا
اس کو دیکھیں گی صف بہ صف آنکھیں
جب جدائیم کا میں نے ذکر کیا
گوہر افشاں ہوئیں صدف آنکھیں
چار جانب بھٹک بھٹک کے یوں
ڈھونڈتی ہیں درِ نجف آنکھیں
کون اس سے یہ اب کہے ناطقؔ!
چاہیں دیدار کا شرف آنکھیں
انتخاب : شاہ معین الدین
0 تبصرہ جات:
تبصرہ کیجیے